یمن میں نمیشا پریہ کیس: انسانی ہمدردی، اسلامی فتویٰ اور قانونی حکمت
تحریر: مفتی عطاءالرحمن خان بھوپالی
چیرمین: ہولی ٹری ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی
رابطہ: 9893371845
یمن میں ایک بھارتی نژاد کیرالا کی خاتون نمیشا پریہ کا معاملہ حالیہ دنوں میں بین الاقوامی سطح پر انسانی ہمدردی، مذہبی رہنمائی اور قانونی پیچیدگیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ نمیشا پریہ، جو نرس کی حیثیت سے یمن میں خدمات انجام دے رہی تھیں، پر ایک یمنی شہری کے قتل کا الزام عائد کیا گیا، جس کے نتیجے میں انہیں سزائے موت سنائی گئی۔
🔹 شرعی فتویٰ: ایک جرأت مندانہ اقدام
اس افسوسناک واقعے میں ایک نئی کروٹ اس وقت آئی جب بھارت کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا مفتی ابوبکر احمد صاحب (مسجد ابوبکر، کیرالا) نے اسلامی اصولِ قصاص و دیت کی روشنی میں ایک جرأت مندانہ فتویٰ جاری کیا۔
مفتی صاحب نے واضح کیا کہ
> “اسلام میں قصاص کے ساتھ ساتھ دیت کا دروازہ بھی کھلا ہے۔ اگر مقتول کے ورثاء دیت کو قبول کر لیں تو قاتل کی جان بخشی ممکن ہے، بشرطیکہ معافی خالص رضامندی کے ساتھ ہو۔”
یہ فتویٰ نہ صرف شرعی بصیرت کا غماز تھا بلکہ ایک انسانی زندگی بچانے کی فکر انگیز کوشش بھی تھی۔
🔹 انسانی جذبہ اور سفارتی کوشش
فتویٰ کی روشنی میں بھارت سے ایک وفد یمن روانہ ہوا تاکہ مقتول کے ورثاء سے بات چیت کر کے دیت کے بدلے معافی حاصل کی جا سکے۔
اس کوشش میں رفاہی تنظیموں، انسانی حقوق کی تحریکوں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
🔹 عالمی مکالمہ کا آغاز
نمیشا پریہ کیس نے کئی اہم پہلوؤں کو عالمی سطح پر اجاگر کیا، جیسے:
اسلامی قانون کی لچک اور رحمت
بین المذاہب ہم آہنگی
خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کا مسئلہ
قانونی نظام کی پیچیدگیاں اور انسانی مداخلت کی گنجائش
🔹 نتیجہ
یہ کیس محض ایک عدالتی کارروائی نہیں، بلکہ اسلامی تعلیمات، انسانی ہمدردی اور عالمی اخلاقی اقدار کے درمیان ایک حسین توازن کا مظہر بن چکا ہے۔
اگر اس واقعے سے سبق لیا جائے تو یہ مستقبل میں ایسے کئی مسائل کے حل کے لیے مثالی نمونہ بن سکتا ہے۔
نوٹ: اس تحریر کو کسی بھی اخبار یا آن لائن پلیٹ فارم پر شائع کرنے کی مکمل اجازت ہے، بشرطِ حوالہ۔
